bannerdlt2020.jpg

This Page has 1063246viewers.

Today Date is: 01-04-23Today is Saturday

مسلمانوں کے حسن سلوک نے دو ہندو پنڈتوں کو اسلام کی طرف راغب کیا تحریر مولانا نوراللہ رشیدی

  • جمعہ

  • 2020-02-07

مسلمانوں کے حسن سلوک نے دو ہندو پنڈتوں کو اسلام کی طرف راغب کیا سندھ کے مندروں کے بڑے پجاریوں نے عالم دین سے ملاقات میں اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرکے کلمہ پڑھ لیا۔ رپورٹ: زندگی کا بڑا حصہ بتوں کو پوجتے ہوئے گزارا، اب اسلام کا داعی بنوں گا۔ عبدالرحمن۔ اسلام قبول کرنے پر خاندان والوں نے گھر اور زمین پرقبضہ کرلیا۔ مصائب کے باوجود دین حق نہیں چھوڑوں گا۔ عبدالستار مسلمانوں کے حسن سلوک نے دو ہندو پنڈتوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ زیریں سندھ سے تعلق رکھنے والے ہندو پنڈت منٹھار اور کشن نے پختہ عمر میں اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا، پھر انہوں نے ایک مسلمان عالم سے طویل نشست کی جس میں وہ قائل ہوگئے کہ سچا دین، اسلام ہی ہے اور وہ اپنی عمر گمراہی میں گزارتے رہے ہیں۔ لہذا انہوں نے اسلام قبول کرنے میں دیر نہیں کی۔ منٹھار اور کشن کے اسلامی نام عبدالرحمن اور عبدالستار رکھے گئے ہیں۔ ان دونوں نو مسلموں کا کہنا ہے کہ وہ عمر کے اس حصے میں اسلام قبول کرکے جو خوشی محسوس کررہے ہیں، اُسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے۔ ہمارے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کی بنیادی وجہ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا حسن سلوک بنا۔ مسلمانوں کے اچھے اخلاق کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنے قلب کو دین اسلام کے نور سے منور کرنے کی ٹھان لی تھی۔ ہم ایک مسلمان مبلغ سے مناظرے اور بحث و مباحثے کے بعد اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ کفر کے اندھیروں سے نکل کر دین اسلام کی روشنی میں پہنچنے کے سفر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے نومسلم عبدالرحمن نے بتایا..... میں ہندوؤں کا بڑا پنڈت تھا اور سندھ میں میرے 22ہزار کے قریب شاگرد تھے، جو مجھ سے ہندو مذہب کی تعلیمات حاصل کرتے تھے۔ میرا تعلق ہندوؤں کے ایک معزز مذہبی گھرانے سے تھا، اس لئے ہر کوئی میری بات کو اہمیت دیتا تھا۔ اپنے علاقے میں اور علاقے سے باہر بھی میرا بہت اثرو رسوخ تھا۔ میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مٹی اور پتھر کے بتوں کی پوجا و پرستش میں گزار دیا لیکن کبھی بھی دلی طور پر سکون محسوس نہیں کرسکا۔ اپنی اس کیفیت کا ذکر میں اپنے اہل خانہ سے بھی کرتا رہتا تھا۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے علاقے کا ایک ہندو شخص کراچی جاکر مسلمان ہوگیا اور بعد میں اس نے اپنے اہلخانہ کو بھی دین ِ محمدی میں شامل کرلیا ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا، میں نے اپنے کچھ شاگردوں کو بھیجا کہ اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ اس کو پکڑ کرلے آئے۔ میں نے اس نومسلم سے پوچھا، کہ تو کیوں مسلمان ہوا؟ سچ سچ بتا دے۔ اگر کسی نے تیرے ساتھ زبردستی کی ہے تو میں اس کیخلاف قانونی کاروائی میں تیری ہر ممکن مدد کروں گا۔ مگر اس نومسلم نے کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے گمراہی کی زندگی سے نکل کر دین حق کا راستہ چُنا ہے اور ایک مولانا صاحب نے دین اسلام کی حقیقت مجھ پر اُجاگر کی ہے۔ یہ سن کر مجھے طیش آگیا اور میں نے اس کو تھپڑ مار ا جس سے اس کا گال سُرخ ہوگیا۔ لیکن اس نے اُف تک نہیں کی۔ بلکہ مجھے دُعائیں دیتا ہوا رُخصت ہوگیا۔ اس کے رویے نے مجھے حیران کردیا، میں نے اُسے واپس بلوایا اور پوچھا کہ تم نے مجھ پر غصہ کیوں نہیں کیا۔ تو اس نے کہا کہ اسلام ہمیں صبر کا درس دیتا ہے، اس لئے میں نے صبر کیا اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا۔ میں نے اس نو مسلم سے ان مولوی صاحب کا پتہ مانگا جن کے ہاتھوں وہ مسلمان ہوا تھا، پتہ ملنے کے بعد میں مولانا نور اللہ رشیدی صاحب سے ملاقات کیلئے کراچی آیا اور ان کو مناظرے کی دعوت دی، جسے انہوں نے بخوشی قبول کرلیا۔ پھر مناظرے کے بعد میں نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اصل دین اسلام ہے اور وہیں مولوی صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ اب میں نے اپنی زندگی دین اسلام کی تبلیغ کیلئے وقف کردی ہے۔ ان شاء اللہ میرے کئی ہزار شاگرد بھی بہت جلد کلمہ حق پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ دوسرے ہندو پنڈت کش، جن کا نام قبول اسلام کے بعد عبدالستار رکھا گیا ہے۔ وہ سندھ بھر میں ہندو مذہب کے معروف پیشوا تھے۔ ان کے والد اور دادا بھی پنڈت تھے۔ نومسلم عبدالستار نے ”امت“ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ”میں دو بڑے مندروں کا پنڈت تھا۔ دونوں مندروں کی دیکھ بھال، مذہبی تہواروں کا اہتمام اور پوجا پاٹھ کرانا میری ذمہ داری تھی۔ ایک مرتبہ کسی کام سے میں اسلام آباد گیا، وہاں میری ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ اس نے میرے بارے میں جاننے کے بعد میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ جب تک میں اسلام آباد میں رہا وہ شخص مسلسل میرے ساتھ رہا اور ہر کام میں میری بے لوث مدد کرتا رہا۔ اس کے حسن اخلاق سے میں بہت متاثر ہوا۔ واپسی سے قبل جب میں نے اس سے کہا کہ میرے لائق کوئی حکم ہو تو تو بتاؤ؟ اس نے کہا، اگر واقعی آپ میرے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر دین حق قبول کرلیں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ پہلے میں اسلام کے بارے میں جانوں اور سمجھوں گا۔ اگر مطمئن ہوگیا تو ضرور دین اسلام میں شامل ہوجاؤں گا۔ پھر اس شخص نے مجھے مولانا نورا للہ رشیدی کا نمبردیا کہ آپ ان سے ضرور ملاقات کیجئے گا۔ وہ بہتر طریقے سے آپ کو ہمارے دین کے بارے میں بتائیں گے۔ اس کے بعد میں کراچی آیا اور مولانا نوراللہ رشیدی سے ملاقات کی۔ ان کے ساتھ طویل بحث و مباحثے کے بعد میں اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ اسلام ہی سچا دین ہے۔ پھر میں نے کلمہ پڑھ لیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ میرے مسلمان ہونے کی خبر سن کر والد نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور آبائی علاقے میں میری جو زمینیں تھیں ان پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ علاقے میں میرے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ مجھے میرے بیوی بچوں سے ملنے نہیں دیاجارہا ہے۔ لیکن میں ان مصائب سے پریشان نہیں ہوں، مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ میرے لئے بہتر حالات پید افرمائیں گے۔ جبکہ یہ بھی علم ہے کہ حق اور سچ کے راستے پر چلنے والوں پر آزمائشیں ضرور آتی ہیں۔ اللہ آخرت میں بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ یہ لوگ جتنے ظلم و ستم کریں میں اب اسلام سے منہ نہیں موڑوں گا اور واپس گمراہی کے راستے پر نہیں جاؤں گا۔ اب میں اسلام کی تعلیمات حاصل کررہا ہوں اور لوگوں کو دین حق کی دعوت دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اب تک میں اپنے کئی شاگردوں کو مولانا نور اللہ رشیدی کے ہاتھوں دائرہ اسلام میں داخل کرچکا ہوں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ نومسلم عبدالستار تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کیلئے استقامت کی دعا کریں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی جائیداد اور املاک پر کیا گیا قبضہ چھڑا کر مکان و زمینیں ان کے حوالے کی جائیں۔

صحت و تندرستی کے لیے خاص مشورے