bannerdlt2020.jpg

This Page has 1063261viewers.

Today Date is: 01-04-23Today is Saturday

ادھورااسلام اور ہم تحریر : رانا سعید یوسف

  • منگل

  • 2019-05-28

اورنگزیب عالمگیر کے دور میں کسی فاحشہ عورت نے چار جگہ باقاعدہ شادیاں رچا رکھی تھیں۔ ایک سے خرچہ پانی لیتی، کچھ وقت گزارتی اور پھر میکے جانے کے بہانے دوسری جگہ مال بٹورنے پہنچ جاتی، آخر کب تک۔۔۔؟ بات نکلتے نکلتے سرکاری دربار تک جا پہنچی۔ تصدیق کیلئے اُسکی عدالت میں طلبی ہوئی۔ چونکہ اسلامی قانون نافذ تھا اس لئے زیادہ امکان یہی تھا کہ جب بات پایۂ ثبوت کو پہنچے گی تو اِس عورت کیلئے جان بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اُس نے ایک سیانے وکیل سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا، "اے خاتون! جان تو بچ سکتی ہے مگر فیس بھاری لگے گی۔۔۔!" عورت نے کہا، "تم فیس کی پرواہ نہ کرو، جان ہے تو جہاں ہے۔ زندہ رہی تو پھر بھی کما لونگی۔۔۔!"، لہٰذا سارا زیور اور تمام جمع پونچی لا کر اُس وکیل کو دے دی۔ وکیل نے کہا عدالت میں یوں کہنا کہ "میں جمعے کے روز جامع مسجد کے پاس سے گزر رہی تھی، تو خطیب صاحب کہہ رہے تھے کہ "اسلام میں چار چار شادیوں کی اجازت ہے۔۔۔!"، چلتے چلتے میں بس اتنی بات ہی سن سکی تھی، تب میں نے اسلام کے اس حکم پر عمل کا ارادہ کر لیا اور پھر عمل کر ڈالا۔ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ، یہ حکم صرف مردوں کے لئے تھا، عورتوں کے لئے نہیں۔۔۔!" عزیز دوستو! پتہ نہیں اُس عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ کیا سنایا ہوگا۔ مگر چلتے چلتے آدھی بات سن کر ادھورے اسلام پر عمل کرنے کا رواج اب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ اسلام کو ایک مکمل دین نے طور پر اپنانے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ پھر دین نے جن باتوں سے منع کیا ہے انکو چھوڑنا پڑے گا لیکن ہم اس کے لیے تیار نہیں اسکی وجہ ہے ہم باحیثیت قوم کرپٹ ہوچکے ہیں۔ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں فلاں جرم کی سزا سعودی عرب میں یہ ہے یہاں بھی ہونی چاہیے پر کون لاگو کرے گا یہ اسلامی سزائیں بھائی پہلے اسلامی نظام کا نفاذ ہوگا تو اسلامی سزائیں ہونگی۔ ایک واقعہ ہے جسکا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ پیر کرم شاہ صاحب(ہائی کورٹ کے جج بھی تھے) کے ہاتھ پر ایک ڈیویڈ نامی ہالینڈ کے شخص نے اسلام قبول کیا اسکا اسلامی نام دائود رکھا گیا۔ جب نماز کا وقت آیا تو صرف چند لوگ نماز کے لیے آئے نو مسلم کہنے لگا بھئی باقی لوگوں پر نماز فرض نہیں ہے کیا؟ اسی طرح ہم ادھورے اسلام کی وجہ سے نہ تین میں ہیں نا تیرہ میں ہمیں چاہیے کہ انفرادی طور پر اپنے اندر اسلام کا نفاذ کریں تاکہ ہم اس منافقت سے بچ سکیں نام سے تو ہم مسلمان ہیں لیکن کام صد افسوس ؟ اسی طرح بڑے شہروں میں سحری اور افطاری کی تفصیلات پر مبنی بینر دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں اصل چیز روزہ نہیں بلکہ سحری اور افطاری ہے۔ اِدھر سحری کا وقت ہوتا ہے تو لوگ بھیڑوں کی طرح سحری کرنے چل پڑتے ہیں، اور اُدھر افطاری کا وقت ہوتا ہے بےصبروں کی طرح اُدھر کھانے پینے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، لیکن سحری و افطاری کے درمیان کیا کرنا چاہیے، اور کیا نہیں کرنا چاہیے، یہ بات اب اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ لوگ روزہ رکھ کے سارا دِن جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، چوریاں کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، بُری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وقت گزاری کیلئے موسیقی، شطرنج، تاش اور دوسری کھیلوں سے محظوظ ہوتے ہیں، تو بتائیے روزے کی اصل روح کہاں برقرار رہے گی؟، جب روزے کا مقصد ہی فوت ہو جائے۔ بھوکا رہنا ہی روزہ نہیں بلکہ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے پرہیز کرنا ہے۔ خدا را! اس ماہ رمضان میں اپنی نماز، روزہ اور دیگر عبادات کو شریعتِ اسلامی کے تحت ادا کر کے اپنی آخرت کی تیاری کی کوشش کرنا چاہیے اور ماہ صیام کے بعد بھی اپنی زندگی ایسے ہی گزارنے کی کوشش کرناچاہیے۔

صحت و تندرستی کے لیے خاص مشورے