bannerdlt2020.jpg

This Page has 1063220viewers.

Today Date is: 01-04-23Today is Saturday

اردو زبان کا زوال اور ہمارا رویہ از سمیرا ناز (اسلام آباد)

  • ہفتہ

  • 2020-08-15

زبان زندہ جذبات کی ترسیل کا ایک خوبصورت ذریعہ اور کسی معاشرے کی شناخت ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اپنی شناخت کو برقرار نہیں رکھ سکتاجب تک کہ ایک مضبوط ترسیلی زبان کا حامل نہ ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزرتے ماہ و سال نےہمارے معاشرے میں زبان کے حوالے سے ماضی میں کافی اتار چڑھا و کا سامنا کیا ہے۔وہ زبان جو کہ شناخت تھی اس کو بری طرح مسخ کیااور نہ صرف مسخ کیا بلکہ مسخ کرنے کے باوجود اس کو چھوڑا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ کرتے رہے کہ اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا۔ زبان کا یہ بگاڑ کسی ایک آدھ دہائی کا کرشمہ نہیں بلکہ تنزلی کا یہ سفر زینہ بہ زینہ طے ہوااور ہوتے ہوتے اس مقام پر آ گیا کہ ہمیں اپنی قومی زبان میں بات کرنے میں شرمندگی محسوس ہونے لگی۔اور پھر کچھ ایسا ہوا ہماری نئی پود کو ولائیتی زبا ن کا کچھ ایسا چسکا پڑا کہ وہ اس زبان کا استعمال الٹا سیدھا ہی سہی مگر کرتے رہے۔خیر جی نتیجہ کیا ہوا کہ‘‘ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا’’کے مصادق ہمارے بچے ہمارے نہ رہےغیر ہو گئےاور والدین جو بچوں کو کل منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولتے دیکھ کر خوش ہوتے تھےاب کہتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔‘‘پہلے تو ٹماٹر لال تھا اب گل گیا’’ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اگر تھوڑا سا ماضی کےجھروکوں میں جھانکیں تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کے لئے اردو زبان ایک گالی بن گئی ہے۔اسکول ہوں یا کالج دفتر ہوں یا کوئی پرائیویٹ کمپنی ہر جگہ انگریزی کو ہی معیار ذہانت قرار دے کر اردو کی تنزلی میں جہاں تک ہو سکا حصہ ڈالا۔اور ہوتا بھی کیوں ناں ۔۔۔ ‘‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’’ کا قانون جو رائج تھا۔ وقت اورحالات بدلتے ہی گئے۔ دن بہ دن زبان اپنا اصل رنگ و روپ کھوتی گئی اور پھر یہ ہوا کہ ہمیں ہوش آنے لگااس وقت جب اس حوالے سے کئی مباحث کا سلسلہ چل نکلا کوئی درست زبان میں بات کرنے والا نہ رہا۔ہمارے بچے حروف تہجی تک بھول گئےاور ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ کوئی وقت تھا جب بچے پڑھے بغیر ہی اردو کے مضمون میں پاس ہو جاتے تھے اب باقاعدہ اکیڈمیاں چلنے لگیں اور ان میں والدین بھاری فیسیں دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے۔ مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی کےمصادق۔ کیا ہے کہ جب ہم نے سوچ لیا کہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہماری زبان ہے تو پھر موضوعات پر بحث کا احاطہ کیونکر ہوتا۔۔۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ہماری زبان سیاسی ،اخلاقی،سماجی اور تہذیبی تنزلی کا شکار ہوتے ہوتےآخر ہمارے ہاتھ سے چھوٹنے لگی۔ حکومتیں آتی رہیں اور صورت حال کو بدلنے کی کوشش ہوتی رہی۔۔اور جو کوشش ہوئی بھی تو اس کا کوئی خاص اثر ہمارے معاشرتی حالات میں ہوتا نظر نہیں آ رہاکیونکہ جب قومیں ادبی کرپشن شروع کر دیں ، اور اپنی پہچان سے نظر چرانے لگیں اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہو جائیں۔تو پھر حالات میں بہتری کیونکر آئے گی۔ قوموں کی تقدیر بنائی جاتی ہے ان کی حالت کو سنوارا جاتا ہے نا کہ اور ہی بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے۔قوم کی ترقی افراد کی محتاج ہوتی ہے اور جب قوم ہی اپنی زبان کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے تو پھر حالات سدھرنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔ ہم نے تعلیمی اداروں میں بچوں کو کتابوں کے بوجھ تلے دبا کر یہ سمجھ لیا کہ ہم ترقی کر گئے لیکن جب اس بوجھ کے نیچے سے ایک زنگ آلاد پود باہر آئی تو وہ گونگی تھی وہ اپنی بات کرنے کی صلاحیت کھو چکی تھی۔میرا یہاں مقصد کسی زبان کے استعمال کو برا یا اچھا کہنا نہیں ہے ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ہماری زبان ہی ہمیں ہماری شرمندگی کا کارن لگنے لگی، ہمیں اس خطرناک صورت حال پر قابو پانے کہ کوشش کرنی چاہئے۔جب ہر کوئی مائل با جرم ہو یہاں میری مراد استاد ،والدین اور تعلیمی نصاب سے ہے تو پھر بگاڑ کا گلہ کس سے کیا جا سکتا ہے۔اگر ان میں سے ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کا تعین کر لیتا تو ایسا تو ممکن ہی نہ تھا کہ ہم زبان کے زوال میں اتنا آگے نکل جاتے کہ واپسی کا راستہ کٹھن اور دشوار ہو جاتا۔لیکن جب ہر کوئی مائل بہ فساد ہو تو پھر شکوہ ظلمت شب چہ معنی؟ وقت کا ساتھ دینا اور بیرونی دنیا میں موجود نت نئی للکاروں سے نبٹنے کے لئے ہمیں ہر طرح لیس ہونا چاہئے ۔ نت نئی ہونے والی ایجادات کی معلومات بھی ہوں اور ادب کے میدان میں ہونے والے کارناموں کا علم بھی ہو لیکن اس کے ساتھ اپنی پہچان کو قائم رکھنا ایک زندہ قوم ہونے کی علامت ہے۔ غورو فکر کریں ، نئے منصوبوں پر کام کریں،لیکن اپنی پہچان نہ بھولیں کیوں کہ پہچان سے محبت قوموں کی کایا پلٹ سکتی ہے، لیکن اس کے لئے ہر فرد کو اپنے طور پر ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا اور بیرونی دنیا میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنا ہو گا کیونکہ ایک زندہ قوم کی یہ ہی نشانی ہے کہ وہ اپنے آنے والے کل کے لئے اپنے آج کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

صحت و تندرستی کے لیے خاص مشورے